نذر عباس
پاک وائسز، رحیم یار خان

راجن پور اور رحیم یار کو ملانے والا یہ واحد پل سال کے چھ ماہ بند اور اتنے ہی ماہ کراسنگ کے لیے کھولا جاتا ہے۔
پنجاب کے بڑے شہروں میں کہی میٹرو اور کہی موٹر وے جیسے ترقیاتی کاموں کا شور اپنی جگہ لیکن راجن پور اور رحیم یار خان کے عوام آج بھی کشتیوں پر گھنٹوں طویل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
حکومت نے بے نظیر کے نام سے پکہ پل تو تعمیر کر دیا لیکن نہ رابطہ سڑکیں اور نہ ہی گائیڈ وال بنائے گئے ہیں جس کی وجہ سے لوگ آج بھی اسٹیل پل استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

پس منظر
چاچڑاں شریف کے مقام پر 1951 میں کشتیوں کا عارضی پل بنایا گیا جس پر چار دہائیوں تک راجن پور اور رحیم یار خان کے عوام سفر کرتے رہے۔ 1993میں سابق وزیر اؑعظم بنظیر بھٹو نے سٹیل پل کا منصوبہ دیا جس پر آج بھی لوگ سفر کرتے ہیں۔لیکن یہ پل صرف 15اکتوبر سے 15اپریل تک ٹریفک کے لیے کھولا جاتا ہے اور باقی عرصہ لوگ کشتیوں پر سفر کرتے ہیں۔

کشتیاں اور پر خطر سفر
کشتیوں کا یہ سفر نہ صرف طویل بلکہ پر خطر بھی ہے جان جوکھوں میں ڈالنے سے خالی نہیں۔ راجن پور کے ریائشی ذیشان نے پاک وائسز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “راجن پور ایک پسماندہ علاقہ ہے ،یہاں کے لوگ علاج اور تجارت کے لیے رحیم یار خان اتے ہیں جن کا 7گھنٹے کا طویل سفر کرکے رحیم یار خان انا پڑتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا: “پل بننے کے بعد راجن پور سے رحیم یارخان کا سفر صرف 2گھنٹے کا رہے جائے گا۔”
2010 کا منصوبہ تاحال نامکمل:

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں نشتر گھاٹ کے مقام پر ایک نئے منصوبے کا آغاز کیا گیا جو آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ سات سالوں میں چھ ارب روپے کے منصوبے کی لاگت 13ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ آج بھی منصوبے کے مکمل ہونے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔
رابطہ سڑکیں نہ ہونے کے باعث شہریوں کی مشکلات:
رابطہ سڑکیں اور نہ ہی گائیڈ وال بنائے گئے ہیں۔ رابطہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاچڑاں شریف کے چالیس سالہ رہائشی اختر میرانی نے بتایا، “اگر کوئی رکشا ،کار یا وین دریا کے اندر کچہ میں پھنس جائے تو وہاں سے نکلنا عذاب سے کم نہیں۔” انہوں نے کہا:”کشتیوں کا سفر تھکا دینے والا سفر ہے۔”

پل کی تعمیر نہ صرف راجن پور اور رحیم یار خان کے شہریوں کو مشکلات میں کمی کرے گی بلکہ تین صوبوں پنجاب بلوچستان اور سندھ کے لیے بھی بریج کا کردار ادا کرے گی۔
مصنف کا تعارف: نذر عباس رحیم یار خان سے پاک وائسز کے لیے بطور سٹزن جرنلسٹ کام کرتے ہیں۔
ایڈیٹنگ: حسن خان