یلان بلوچ
ضلع کیچ کی سب تحصیل زامران جو ایک زمانے میں باہمت لوگوں کی سرزمین ہوا کرتی تھی،جہاں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بڑے بڑے پتھروں کو دور دراز کی پہاڑیوں سے لیکر بغیرکسی مشینری یا کسی سرکاری مدد سے اپنی مدد آپ کے تحت پتھروں کو کندھوں پر لاکر بڑے بڑے سندات تعمیر کیے جہاں وہ کاشتکاری کیاکرتے تھے
زامران کی زمین میدانی نہیں بلکہ پہاڑی ہے جہاں سنگلاخ پہاڑوں اور پتھروں کے علاوہ میدانی علاقہ بہت کم ہے،البتہ ان پہاڑوں کے اندر سے جو چشمے پھوٹتے ہیں انکاپانی انتہائی میٹھا ہے جسمیں ذرا بھر بھی نمک کا ذائقہ نہیں ہے.
موسمی اعتبار سے بھی ایک معتدل علاقہ ہے جہاں سرد وگرم علاقوں کے فصل اور فروٹ تیار ہوتے ہیں،وہاں کے لوگوں کا گزر بسر پہلے زمانے میں مال مویشیوں اور کجھور کے فصل سے ہوتا تھا اور جو مشہور کجھور کاقسم ہے وہ ہے “مُزاتی” جو پنجگور،ایران کے بعد زامران میں ہوتا تھا اور اب بھی ہے لیکن اس تحریر کامقصد کجھور کی اس قسم کو در پیش خطرات سے حکومت وزمہ داران کی توجہ دلاناہے مقصود ہے
زامران جو ماضی بعید میں 366سے زائد دیہاتوں اور کلگوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا مگر مختلف زمینی وقدرتی آفات سے متاثر ہوکر علاقہ کے مکینوں نے ایران،پنجگور،تربت اور تمپ سمیت دیگر علاقوں کی جانب کثیر تعداد میں ہجرت کرنا شروع کیا. کیونکہ زامران ایک جانب ایران اور دوسری جانب پنجگور تیسری جانب تربت اور چوتھی جانب تحصیل تمپ سے ملتی ہے اسی لیے ان چاروں علاقوں سے اہلیان زامران کو نسبت ہے اور رشتہ داریاں بھی ہیں
یوں تو اس علاقے کے مشکلات ومسائل بہت زیادہ ہیں، مگر آج کے اس تحریر میں کجھور اور خصوصاً زراعت کے شعبے پر بات کرتےہیں، کجھور کا ایک اعلی قسم مُزاتی ہے،جو دیگر علاقوں کی طرح زامران کی اصل پیداوار تھی اسکا رس نکالتے، اسے کاٹ کاٹ کر “کپو”بناکر جب سوکھ جاتا تو سال تک بطور کھانے کے استعمال ہوتا تھا، اس کے “پیش بند” بھی تیار ہوتے تھےاور اسے دیگر مختلف اقسام میں پیک کرکے ناصرف اپنے لیے رکھتے تھے بلکہ تحفتاً بھیدور دراز علاقوں تک بھیجتے تھےباہر منڈی تک بھی پہنچاتے تھے مگر منڈی میں یہ بہت کم پہنچتاتھا جسکے اسباب پر اس تحریر میں بات کریں گے
مکران میں کجھور کے دو اعلی قسم ہیں جن میں پہلا بیگم جنگی ہے جو کیچ سمیت دیگر علاقوں میں پایا جاتاہے،اور دوسرا اعلی قسم مُزاتی ہے، جو بیگم سے بھی بیترین کوالٹی کی کجھور ہے جو مکران میں سب سے زیادہ ضلع پنجگور میں پنجگور شہر اور پروم میں پایا جاتاہے اور دوسرا اہم علاقہ ضلع کیچ کا زامران ہی ہے جہاں اسکے بڑے باغات ہوا کرتے تھے، مگر گزشتہ کئی سالوں سے زامران میں اب کجھور کے دیگر اقسام کی طرح اس قسم کو شدید خطرات لاحق ہیں،اسکے بڑے بڑے سرسبز باغات ہوتے تھے جو دیکھنے والوں کیلئے قابل دید تھے مگر اب وہ لوگوں اور حکومت کی عدم توجہی سے معدوم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ آخری سانسیں لے رہے ہیں
شاید یہ سرکار کی پالیسی بھی تھی اور علاقہ پر طویل حکمرانی کرنے والوں کی خواہش و کوشش تھی کہ کیسے اس علاقے کو ویران کردیا جائے جہاں آج کے دور میں بھی جو اہم بنیادی ضروریات ہے سڑک وہ تک نہیں ہے،80کی دہائی میں بلدیاتی فنڈز سے اور پھر تقریباً 1992میں بلڈوزر کے زریعے اس علاقے میں گاڈیوں کیلئے گزرگاہیں بنائی گئیں،مگر پکی سڑک تو اپنی جگہ سنگلاخ پہاڑوں پر کام کا کچا سڑک بھی نہیں لوگوں کو اس جدید دور میں بھی شہر تک جانے کیلئے ایک ایک دن کا سفر کرنا پڑتا ہے تب جاکر بمشکل لوگ شہر پہنچتے ہیں،ایسے میں جب لوگ خود آنے جانے کیلئے کرب سے گزرتے ہوں وہاں کی فصل کیسے منڈیوں تک پہنچتی ہے اور شہرت حاصل کرتی ہے،اسی لیے زامران سے زیادہ ایرانی وپنجگور کا مزاتی کجھور شہر تک اور مارکیٹ تک پہنچ کر اپنا نام ومقام پیدا کرسکا مگر زامران کی مزاتی کو مارکیٹ میں مقام ومرتبہ نہ مل سکا.
عمان کبھی جانا نہیں ہوا مگر عمان کے پہاڑی علاقوں کو دیکھ محسوس ہوتاہے یہ بھی زامران جیساہی علاقہ ہے مگر وہ اپنوں کے ہاتھوں میں ہے اسی لیے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی سڑک سیر وتفریح کرنے والوں کیلئے بہترین مقام ہے مگر زامران جو سڑک سمیت دیگر سہولیات سے محروم ہے اپنے باہمت لوگوں کیلئے بھی قابل مسکن نہیں ہے
حکومت اور ارباب اختیارات کیلئے سوچنے کامقام ہے کہ انہوں اس علاقے پر بڑی زیادتی کی ہے اب بھی موقع ہے کہ سرکار خصوصاً حقیقی اختیار دار جن کے اشاروں سے ہی کام ہوتے ہیں اس علاقے پر رحم کریں،اور وہاں کے باسیوں کی آبادکاری کیلئے علاقے میں سڑکوں پر توجہ دیں اور کجھور کے اس نایاب قسم کی حفاظت کیلئے سرکاری سطح ہر سنجیدگی سے سوچیں کیونکہ مزاتی کے بعد اب شہری علاقوں میں بیگم جنگی کوبھی شدید خطرات لاحق ہیں،زمینیں کمرشلائیز ہوکر سستےداموں پلاٹنگ ہوکر فروخت ہو رہے ہیں،اب ہماری زمہ داری قومی وعلاقائی درد رکھنے والوں سمیت حکومت کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے علاقوں کی جانب توجہ دے اور وہاں کی پیداوار کو محفوظ بنانے کیلئے ایک پلان تشکیل دے. لوگوں کو یہ بھی شعور دے کہ کجھور سمیت دیگر فصلوں کی حفاظت کیلئے حکومت انکی سرپرستی کرےگا اور وہ بھی ہمت باندھیں تو وہ دن دور نہیں ہوگا کہ ایک مرتبہ پھر زامران میں کجھور کی اس اعلی قسم کی نسل باقی رہےگا اور مارکیٹ تک مقام بھی حاصل کر سکے گا مگر اس پر توجہ دےگا کون