عدیل عباس
یہ وقت ہے رمضان کا، ہلکی حلکی گرمی شروع ہو رہی تھی، رمضان کا آخری عشرہ تھا، عید نزدیک تھی اور سب عید کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ اسی دورانی میں مجھے خبر ملی کہ طاہر ماموں کا حادثہ ہو گیا ہے، وہ میری والدہ کے بڑے بھائی ہیں اور میری بیوی کے پھوپھا بھی ہیں۔ ان دونوں طرف کے رشتے سے اور والدہ کے خاندان کے سربراہ ہونے کی وجہ سے ہمارا لگاو توڑا زیادہ تھا۔ یہ سن کے پریشانی کی حالت میں ہم گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ حادثے سے اللہ نے حفاظت فرما دی ہے، بس کمر میں تھوڑا سا درد ہے
2-4دن گزرنے کے بعد یہ درد کم نہیں ہورہے تھے، تو کِڈنی کے ماہر کے پاس ہم ماموں کو لے گئے، انہوں نے کہا کہ کِڈنی میں تو سٹون ہے، اُنہوں نے آپریشن کرنا ہوگا، الٹراساؤنڈ اور مختلف ٹیسٹ شروع ہوگئے، پتہ چلا کہ ماموں کا آپریشن شام کو ہوگا، سب کچھ اتنا جلد جلدی ہورہا تھا کہ دل مطمئن نہیں تھا۔ شام کو آپریشن ہوا، ماموں کے سٹون دیکھا دیا گیا اور ہمیں تسلی کیا گیا کہ سٹون نکل گئے ہیں۔
سکون کا سانس لیا اور گھر لے آئے، درد ہے کہ ماموں کو جانے کا نام نہیں لے رہے ہیں، پھر درد اور ڈاکٹر کا یہ سلسلہ چلتا رہا ہے ایک ماہ تک، آخر ماموں کو وائٹ بلڈ سیلز یا ریڈ بلڈ کم ہونا شروع ہو گئے یا وہ وقت ہے جو ڈاکٹر کو سمجھ آنا بند ہو گیا تھا اور دوسرے ڈاکٹر کے پاس جانے کی سگجسٹن دینے شروع ہو گئی، شوگر کے وہ مریض تھے، ٹیبلٹس ختم کروا لے انسولین پے لے آئے، پھر جو آگے ہی مسئلوں کا پہاڑ بنا ہوا ہے رہے صحیح کسر اِن شوگر کی میڈیسن کی تبدیلی نے کر دی، شوگر 200 سے 500 تک چلی اور سب کچھ کنٹرول سے باہر ہو گیا، پھر ماموں کے گھر والوں نے رونا شروع کر دیا۔
دو دن بعد لاہور کا ٹکٹ ملا، کسی طرح ماموں کو پی آئی اے سے سبکنشیئس حالت میں لاہور لے گئے، جاتے ہی آئی سی یو میں داخل کیا اور شوگر کو مستحکم کیا، وائٹ بلڈ سیلز بارابر کی اور ماموں کے بیٹے نے تسلی کی خبر دی. یہ حال ہے کوئٹہ کے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا، اپنے عزیزوں کو اِن کسیوں کے ہاتھوں میں نہ دو، شیدا لاہور یا کراچی لے جاؤ، اِس پیغام کو آگے پہنچا دو تاکہ ہماری طرح کوئی اور پرشان نہ ہو۔